Mirza Ghalib Poetry
نہ کچھ تھا تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
Mirza Ghalib, born Mirza Asadullah Baig Khan, is one of the most revered and influential poets in Urdu and Persian literature. Born in 1797 in Agra, India, Ghalib’s poetry reflects the tumultuous times of the Mughal Empire’s decline and the rise of British colonial rule. His poetry is characterized by its profound depth, intricate metaphors, and a unique blend of classical and innovative styles. Ghalib’s verses explore themes of love, loss, existentialism, and the complexities of life, making him a timeless figure whose work resonates across generations.
For More Urdu Poetry And Quotes Click On This Link: The Quotes News
Ghalib’s life was marked by both personal struggles and literary triumphs. Despite facing financial difficulties and personal tragedies, including the deaths of his children and wife, Ghalib’s poetic genius flourished. He was a master of the ghazal, a poetic form consisting of couplets expressing deep emotions and philosophical reflections. Ghalib’s ghazals are celebrated for their lyrical beauty and profound philosophical insights, earning him a reputation as the “God of Urdu Poetry.”
Throughout his life, Ghalib received recognition for his poetic brilliance, yet he faced considerable challenges, including criticism from traditionalists who found his style unconventional. Nevertheless, his influence transcended borders, and his poetry continues to be celebrated not only in the Indian subcontinent but also globally. Mirza Ghalib’s legacy endures as a testament to the power of poetry to capture the human experience with timeless eloquence and emotional depth.
مرزا غالب، جس کا ولادتی نام مرزا اسد اللہ بیگ خان تھا، اردو اور فارسی ادب میں عظیم اور اثراتی شاعر میں سے ایک ہیں۔ غالب کا پیدائش سال 1797 میں بھارت کے آگرہ شہر میں ہوا۔ ان کی شاعری مغلیہ سلطنت کی زوال اور برطانوی کالونی پر قابو کے بڑھنے کے پریشان حال وقت کو عکس کرتی ہے۔ غالب کی شاعری اس کی گہرائی، پیچیدہ متاشیاں، اور کلاسیکی اور نوآورانہ انداز کی مخصوص مخلوطی سے مشہور ہے۔ غالب کی شاعری عشق، زوال، وجودیت، اور زندگی کی پیچیدگیوں کے موضوعات پر مبنی ہے، جو انہیں ایک لازمی شخصیت بناتا ہے جس کا کام نسلوں کے درمیان تاثر پیدا کرتا ہے۔
ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ ائے تو برا کیا ہے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے ائے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کو حاجت روا کرے کوئی
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
بے در و دیوار سا ایک گھر بنانا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسبان کوئی نہ ہو
موت کا اک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے اتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
عشق میں طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی ، درد بے دوا پایا
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
مہربان ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے
دل نادان تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
بس کے دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا
آدمی کو بھی میسّر نہیں انسان ہونا
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
محبّت میں نہیں فرق جینے اور مرنے میں
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ہم نے مانا کے تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
اگ رہا ہے در و دیوار پہ سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
رنج سے خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گیئیں