Jaun Elia Sad Poetry
Jaun Elia Poetry, a renowned Urdu poet and philosopher, is celebrated for his unique and profound poetry that delves deep into the complexities of human emotions and existential questions. His poetry reflects a blend of intellectual depth, skepticism, and raw emotional honesty.
John Elia Poetry – Best Jaun Eliya Shayari In Urdu With Sad DP
Urdu Poetry – Urdu Shayari – Best Poetry In Urdu
In his poetry, Jaun Elia often explores themes of love, loss, and existential angst. He has a remarkable ability to capture the essence of human suffering and longing through his poignant verses. His language is rich with metaphor and symbolism, resonating with readers who appreciate the complexity of the human experience.
Another notable aspect of Jaun Elia’s poetry is his philosophical outlook. He grapples with profound questions about life, death, and the purpose of existence, often presenting a bleak yet thought-provoking perspective. His poems invite introspection and contemplation, offering readers a glimpse into the depths of the poet’s intellectual and emotional landscape.
Overall, Jaun Elia’s poetry is characterized by its depth, complexity, and profound insight into the human condition. His unique style, coupled with his philosophical musings and emotional depth, continues to captivate readers and make him a significant figure in Urdu literature.
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
بہت نزدیک آتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو
اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر
کب پرند اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے
ہر شخص سے بے نیاز ہو جا
پھر سب سے یہ کہہ کہ میں خدا ہوں
آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا
جوں ہی دروازہ کھولا ہے اس کی خوشبو آئی ہے
اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی
یہ وار کر گیا ہے پہلو سے کون مجھ پر
تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا
حاصل کن ہے یہ جہان خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا
اک عجب آمد و شد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں