سینیٹر فیصل واڈا کے مطابق اگر کوئی حلف نامہ ہمارے لیے متعلقہ ہے تو وہ تمام پاکستانی عدالتوں اور جرنیلوں سے متعلق ہوگا۔ اگر ہماری پگڑیاں اچھالیں تو ہم پگڑی والا فٹ بال بنائیں گے۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر سینیٹ کا 337 واں اجلاس شروع ہوا۔ گیلانی نے مولانا عبدالوصی اور فیصل واوڈا کو سینیٹرز کے عہدے کا حلف بھی دلایا۔
سینیٹر اسحاق ڈار کی جانب سے ایوان کی وقفہ سوالات کی مدت ختم کرنے کی تحریک منظور کر لی گئی۔
حکومتی امیدواروں کو بینگن، کدو اور ٹماٹر سے شکست، شبلی فراز
اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے بانی سیاسی جرائم کی وجہ سے گزشتہ 9 ماہ سے جیل میں بند ہیں، ان کی اہلیہ کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں>>مخصوص کنڈیشنز کے ساتھ انٹرنیٹ کے بغیر واٹس ایپ کا استعمال ممکن ہوگیایہ بھی پڑھیں
ان کے مطابق یاسمین راشد اور دیگر خواتین پی ٹی آئی کے 99 فیصد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جو جیلوں میں نظر بند ہیں۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ سینیٹ پی ٹی آئی کے چیئرمین اعجاز چوہدری کی پروڈکشن دستیاب ہو جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی قانون ساز اسمبلی کو قانون کے مطابق تحلیل کیا۔ یہ ایک سیاسی اور آئینی انتخاب تھا، اور آئین کے مطابق انتخابات 90 دنوں میں ہونے تھے۔ تاہم اس کی جگہ پاکستان تحریک نے نگراں انتظامیہ تشکیل دی۔ انصاف کو کسی طور پر ظلم نہ ہونے دیں۔
شبلی فراز کے مطابق وفاقی حکومت کے خاتمے کے بعد نوے دن میں انتخابات ہونے تھے۔ تاہم اس دوران ایک غیر آئینی نگران حکومت قائم ہوئی اور جب الیکشن کا اعلان ہوا تو ہماری پارٹی کا انتخابی نشان چرا لیا گیا اور ہمارے امیدواروں کو بیہودہ گریڈ مل گئے۔
آمریت کے بارے میں اپنی پریشانیوں کا اظہار کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لینے کے بجائے، انھوں نے کہا کہ بینگن، کدو اور ٹماٹر کے مضحکہ خیز انتخابی نشانوں نے انھیں شکست دی اور اپنی وفاداری ظاہر کی۔
انہوں نے اس بات پر گہرے افسوس کا اظہار کیا کہ خیبرپختونخوا کے سینیٹرز اس ایوان میں موجود نہیں ہیں، یہ ابھی تک مکمل طور پر فعال نہیں ہے، اور چیمبر کی کوتاہیوں کے باوجود آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتخابات کرائے گئے۔
اس بار سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب انہوں نے پی ٹی آئی کے کسی اپوزیشن لیڈر کی تقریر پر پوری توجہ دی اور اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے بہت اچھا بول کر کام کیا۔
ان کے بقول اپوزیشن لیڈر کی تقریر کاٹ نہیں گئی، اس لیے وہ شکایت کرنا چھوڑ دیں کہ ان کی آواز نہیں سنی گئی۔
شبلی فراز، اسحاق ڈار، کاش آپ نے یہ باتیں دو تین سال پہلے کی ہوتیں۔
اس کے بعد اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے خطاب کیا اور کچھ بہترین اشعار بھی پیش کیے لیکن قائد ایوان اسحاق ڈار کے بقول اگر وہ دو تین سال پہلے ایسی ہی باتیں کرتے تو پاکستان کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ قائم مقام وزیراعظم نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں اور 2023-24 کے بجٹ میں انتخابات کے لیے مختص کیے گئے 45 ارب ڈالرز استعمال نہ ہوتے اگر مردم شماری پہلے نہ کرائی جاتی۔ نگران حکومت نے پھر اقتدار سنبھالا۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ خیبرپختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات نہیں ہوئے تاہم انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ صوبائی حکومت اور عدالت کے درمیان جاری قانونی تنازع کے پیش نظر انہیں وہاں کیوں نہیں کرایا گیا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ نگراں انتظامیہ کو طول دینے کی بجائے انتخاب کی ضرورت ہے۔
سابق نگراں وزیر اعظم اور سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ آئین اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کے لیے 90 دن کا وقت دیتا ہے لیکن اس میں بہت سی دوسری شرائط بھی عائد ہوتی ہیں۔ مکمل
ان کے بقول آئین کے مطابق ہر دس سال بعد مردم شماری کرائی جائے تاکہ کسی بھی گروہ کو ووٹ ڈالنے کی صلاحیت سے محروم ہونے سے بچایا جا سکے۔ اس کے بعد حلقہ بندیوں کا انتخاب اس مردم شماری کے بعد، اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس متفقہ فیصلے کے بعد کہ کام میں تاخیر خود بخود اسے غیر قانونی یا غیر آئینی قرار نہیں دیتی، 8 فروری کو انتخابات کی تاریخ کے طور پر منتخب کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں نگران حکومت میں توسیع کے لیے نہیں کہا گیا، مجبور کیا گیا۔ نتیجے کے طور پر، سپریم کورٹ سمیت تمام پاکستانی اداروں نے 8 فروری کو آغاز کی تاریخ مقرر کی، اور ہم ایک گھنٹہ بھی آگے نہیں بڑھے۔
یہ ممکن نہیں کہ ہم ایوان سے باہر کسی سے صادق و امین، فیصل واڈا کی اسناد وصول کر رہے ہوں۔
اس کے بعد حال ہی میں منتخب ہونے والے سینیٹر فیصل واڈا نے اعلان کیا کہ “میں تحریک انصاف کا دیرینہ رکن ہوں، اور میں نے چیئرمین سے سیاست کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ کاش وہ اس وقت میری بات سن لیتے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی ستاروں سے بات کر رہی تھی اور چیئرمین چاند سے بات کر رہے تھے جب مجھے سچ بولنے پر پارٹی سے نکالا گیا لیکن مجھے سچ بولنے پر نکال دیا گیا اس لیے میں نے اخلاقی طور پر وہ سیٹ تحریک کو واپس کر دی۔ -انصاف جسے میں کسی سے واپس نہیں لے سکتا تھا۔
انہوں نے اشارہ کیا کہ میں نے دوسروں کی طرح برتاؤ نہیں کیا جو ایف کرنے میں کامیاب رہے۔
لی نے 9 مئی کے بعد اصل چیئرمین کے خلاف پریس کانفرنس کر کے کہا کہ میں آگے ایسا نہیں کروں گا۔ اس کے بجائے میں نشستوں پر بیٹھ کر انعامات سے لطف اندوز ہوتا رہا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جو کچھ وہ کر رہے تھے اسے پورا کرنا ناممکن ہے جب انہوں نے اعلان کیا کہ یہ ایوان قانون سازی کرے گا، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور شدہ قانون تیار کرے گا، اسے نافذ کرے گا، اس کی تشریح کرے گا اور اس کا خلاصہ کرے گا۔ ہمیں اس ایوان سے باہر کسی سے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ چاہیے، کیونکہ اگر ہماری پگڑیاں اتر گئیں تو ہم انہیں فٹ بال بنانے کے لیے استعمال کریں گے۔
فیصل واڈا نے کہا کہ چونکہ ہم ایوان کے رکن ہیں اور فیصلوں کو قبول کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اس لیے جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو کیا ہوا؟کیا ہمارے پاس اس بات کی وضاحت ہے کہ انہیں یہ پوچھنے اور جاننے کے لیے 46 سال انتظار کیوں کرنا پڑا کہ انہیں پھانسی دی گئی یا کیوں؟ کیا وہ جلاد، بے رحم قلم کار کے لیے ذمہ دار نہیں تھا؟
انہوں نے دعویٰ کیا کہ زرداری کو 14 سال تک بغیر کسی ثبوت کے سخت جیل میں رکھا گیا اور اس وقت کے بعد انہیں اس لیے رہا کیا گیا کہ نواز شریف کو کس قانون کے تحت نااہل قرار دینے کے لیے ثبوت ناکافی تھے، اس کے بعد عمران خان کا نمبر آتا ہے۔ جب انتظامیہ اقتدار میں تھی تو اعتماد کا ووٹ لینا ہماری ذمہ داری تھی لیکن وہ انہیں ہٹانے پر مجبور تھے۔ عدل و انصاف کے دفاتر آدھی رات کو کھل گئے۔
ہم اپنے سسٹم کی وجہ سے 149ویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں، انہوں نے بات جاری رکھی اور جب تک اس چھ سے نو اور نو سے چھ کو نہیں روکا جائے گا، پاکستان ٹھیک نہیں ہو گا۔
فیصل واڈا نے جواب دیا، “مجھے بتائیں کہ جب آپ کسی کی شادی کو شادی کے طور پر قبول نہیں کریں گے، تو آپ ہمارے بیڈ روم سے لے کر باتھ روم سے اسٹیل مل تک، ریکوڈیک سے لے کر نسلا ٹاور تک ہر تفصیل سے منسلک ہوں گے۔” تم بتاؤ ان اسمبلیوں کا کیا کرنا ہے، اور ہم بیٹھ گئے۔
ان کے مطابق، اگر کوئی حلف نامہ مجھ پر لاگو ہوتا ہے تو اس کا اطلاق تمام پاکستانی ججوں اور جرنیلوں پر بھی ہو گا۔ اگر نہیں، تو ہم اسے لاگو کر دیں گے اور جب تک ہمارا نظام تبدیل نہیں ہو جاتا ہم اسے جاری نہیں رکھ سکیں گے۔
بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس جمعہ کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔